۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
آہ استاد محترم مولانا سید شباب حیدر نقوی نوراللہ مرقدہ  

حوزہ/ مولانا ملنسار، منکسر المزاج،متقی و پرہیز گار، با اخلاق ،  نہایت سادگی پسند انسان تھے جنکا ظاہر و باطن ایک تھا، مرحوم نماز شب کے پابنداور قرآن مجید سے حد درجہ مانوس تھے زندگی کے آخری ایام میں بھی بستر مرض پر قرآن مجید کی تلاوت کو ترک نہیں کیا بلکہ جاری رکھا۔

تحریر: سید رضی حیدر پھندیڑوی دہلی 

 حوزہ نیوز ایجنسیبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ انا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، کُلّ نَفْس ذَائِقَة الْمَوْت ہرجان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔  موت کسی کو نہیں چھوڑتی انسان ہویا حیوان یا پھر چرند ہوں یا  پرند ۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے جسے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہےاور نہ ہی موت کا کوئی انکار کرسکتا ہے۔ یہ نظام اسی کا ہی بنایا ہوا ہے جس نے دنیا کو پیدا کیا ہے۔ اس سے کسی کو بھی مفر نہیں ہے انبیاء ہوں یا اولیا سب ہی کو اس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے ۔ مولانا سید شباب حیدر نقوی  نور اللہ مرقدہ بھی اپنے مقررہ وقت پر  پروردگار کےحکم کا اتباع کرتے ہوئے اس جہاں سے کوچ کرگئے یہ خبر غم ان حالات میں موصول ہوئی جب ہندوستان میں عالمی وبا  کورونا  سے لوگ ہر طرف دہشت زدہ نظر آرہے تھے اور چاہنے والوں کیلیے سفر کرنا دشوار ہورہا تھا جو جہاں تھا  وہیں سے دعاء مغفرت کررہا تھا اور شوشل میڈیا پر تصاویر دیکھ کر جنازہ میں شرکت اور حاضری سمجھ رہا تھا یقینا مولانا کی رحلت ایک عظیم علمی اور تدریسی خسارہ  ہے جس کا جبران  ممکن نہیں ہے۔

مولانا  ملنسار، منکسر المزاج،متقی و پرہیز گار، با اخلاق ،  نہایت سادگی پسند انسان تھے جنکا ظاہر و باطن ایک تھا مولانا نماز شب کے پابنداور قرآن مجید سے حد درجہ مانوس  تھے زندگی کے آخری ایام میں بھی بستر مرض پر قرآن مجید کی تلاوت کو ترک نہیں کیا بلکہ جاری رکھا۔ مولانا  خوددار انسان تھے انہوں نے مختصر تنخواہ پر پوری زندگی  سکون و اطمینان کے ساتھ اہل وعیال اور دیگرذمہ داریوں کو پوری دیانتداری   سے نبھاتے ہوئے گزاری۔  مولانا ہردل عزیز تھے مدرسہ کے تمام اساتذہ و طلاب آپ سے بہت محبت فرماتے تھے۔مولانا مرحوم ایک منفرد انداز میں تدریس فرماتے تھے ہرجمعرات کو پورے ہفتہ کا درس شاگردوں سے سنتے اور اپنے شاگردوں سے کہتے تھے کہ آج پڑھنے کا دن نہیں ہے بلکہ پڑھے ہوئے کو سنانے کا دن ہے۔  مولانا مرحوم سے مدرسہ کے انتظامیہ بھی محبت کرتے اور ان کو بانی مدرسہ حجۃ الاسلام والمسلمین فخرالعلماء مرزا محمدعالم صاحب نوراللہ مرقدہ کے منتخب شدہ استاد کی حیثیت سے بہت احترام دیتے تھے۔

مولانا سید شباب حیدر نقوی  طاب ثراہ 25 ستمبر سنہ 1961 عیسوی میں سر زمین سرسی  ضلع مرادآباد صوبہ یوپی  پر پیدا ہوئے۔  آپ کے والد سید قمقام رضا نقوی مرحوم تھے جنکا شمار سرسی کے دیندار،  زمیندار اور عزادار  امام حسین علیہ السلام میں ہوتا تھا۔ 

مولانا نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز  اپنے وطن سرسی ہی سے کیا آپ نے ابتدائی تعلیم سرسی میں حاصل کی پھر سنہ1967 عیسوی میں تقریباً 7 سال کی عمر میں اپنی والدہ معظمہ کی خواہش پر دینی تعلیم کے حصول کی غرض سے مولانا سید عارف علی مرحوم سرسوی کے ہمراہ  لکھنؤ کا رخ کیا۔ اور مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ میں داخل ہوگئے  اس وقت جامعہ ناظمیہ میں آپ کے خالہ زاد بھائی مولانا سید شمیم حیدر زیدی پھنڈیروی زیرتعلیم تھے کہ جنہوں نے مولانا کی پوری  طرح راہنمائی فرمائی۔ 

مولانا شباب حیدر مرحوم نے مدرسہ ناظمیہ میں  قیام کے دوران جید اور مہربان اساتذہ سے کسب فیض کیا جن میں آیۃ اللہ سید حمید الحسن تقوی صاحب مدظلہ العالی، مولانا سید ایوب حسین نقوی سرسوی مرحوم ۔ مولانا سید شہنشاہ حسین مرحوم ۔ مولانا سید محمد شاکر نقوی مرحوم۔ مولانا سید ابن حیدر نقوی مرحوم وغیرہ کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں۔ 
    
سنہ 1980 عیسوی  میں مدرسہ جامعتہ التبلیغ مصاحب گنج لکھنؤمیں  استاد  کی حیثیت سےمنتخب کرلیے گئے اور آپ وظیفہ تدریس کی انجام دہی میں مصروف ہو گئےاور زندگی کے آخری لمحات تک اس خدمت  کو انجام دیتے رہے جس کی مدت تقریباً 31 سال ہوتی ہے۔  آپ بہترین  مدرس ہونےکے ساتھ ساتھ ایک  بہترین شاعر بھی تھے آپ کا  کلام شہر کی بعضں ماتمی انجمنیں پڑھتی ہیں۔ 

مولانا نے اپنی زندگی  میں سینکڑوں شاگردوں کو زیور علم و معارف  اہلبیت علیہم السلام سے آراستہ کیا جن میں سے ایک بڑی تعداد ایران اورعراق میں تحصیل علم میں مصروف ہے اور سینکڑوں شاگرد  ایران، عراق اور شام سے واپسی کے بعد  ملک و بیرون ملک میں  وظیفہ تدریس و تبلیغ دین مبین اسلام کی انجام دہی میں مصروف ہیں جن میں: مولانا محمد ابراہیم استاد جامعۃ التبلیغ  لکھنؤ، مولانا قمر عباس خاں سلطانپوری استاد جامعۃ التبلیغ  لکھنؤ، محقق و مدقق مولانا سید رضی حیدر زیدی پھنڈیروی ایران کلچرہاؤس  دہلی،  مولانا سید علی گوہر زیدی مظفرنگری نوراللہ مرقدہ ، مولانا سید ضامن حسین جعفری نجف عراق،  مولانا علی کبیر حسینی نجف عراق ، مولانا شباب جلال پوری، مولانا ضرغام عباس نمولوی، مولانا محمد حیدر پھندیڑوی،  مولانا محمد کاظم جلالپوری، خطیب و شاعر اہلبیت مولاناسید مناظرحسین حسنی فتحپوری، مولانا ثمر عباس سرسوی اور مولانا سید اقرار رضا  رامپوری،  مولانا سید امیر رضا پھندیڑوی، مولانا سید رجب علی پھندیڑوی، مولانا زین الحسن عالم پوری، مولانا احمد علی عالم پوری، مولانا سید محمد تفضل رضوی چھولسی،  مولانا اعجاز حسین جلالپوری،  مولانا نسیم عباس فتحپوری مولانا اشرف علی زیدی، مولانا داور علی و غیرہ کے اسماء قابل ذکرہیں۔ 
 
آپ  خدمتِ دین  کو بہت خاموشی سے انجام دیتے رہے آپ کی ایک خاص خصوصیت یہ تھی کہ آپ محض خطیب ہی نہیں تھے  بلکہ ایک اچھے سامع بھی تھے  جہاں بھی مجلس ہوتی تو آپ  مجلس میں شرکت کرتے  اور خطیب کو داد و تحسین سے بھی نوازتے تھے اور جب  آپ مجلس خطاب فرماتے تو اس  میں اسلامی تاریخ اور واقعات کو منفرد انداز میں بیان فرماتے جو بہت پرکشش اور نہایت دلچسپ ہوتے تھے۔

مولانا نے 20/اپریل سنہ 2021میں مختصر علالت کے بعد لکھنئو شہرمیں داعی اجل کو لبیک کہااور آپ کے انتقال کی خبر  بجلی کی رفتار کی مانند پوری دنیا میں پھیل گئی لکھنؤ اور آپ کے وطن سرسی میں غم کا ماحول چھا گیا،  سوگواروں اور تعزیت پیش کرنے والوں کا ہجوم آپ کے بیت الشرف کی طرف اومنڈ پڑا  ملک و بیرون ملک سے تعزیت پیش کرنے کا سلسلہ کئی دن تک جاری رہا۔ 

مولانا اپنے وطن سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ آپ نے وصیت کی تھی کہ سرسی ہی میں دفن کیا جائے،  وصیت کے مطابق جنازہ سرسی لایا گیا اور مولانا کے جنازہ کو  عالمی وبا کورونا کے باوجود جب انسانیت خوف زدہ تھی  ان حالات میں سینکڑوں عقیدت مندوں  نے ہزار آہ و بکا  کے ساتھ 21/  اپریل سنہ 2021عیسوی میں  امام بارگاہ کلاں سرسی میں مولانا سید نظائر حسین نقوی  طاب ثراہ، مولانا سید سخی احمد نقوی  مرحوم اور مولانا سید حسین الزماں نقوی طاب ثراہ کی قبورکےنزدیک سپرد خاک کیا۔  

میں ان کے فرزندان سید لبیب حیدر نقوی،  سید عابس حیدر نقوی،  دونوں دختر  اور مدرسہ جامعۃ التبلیغ کے مدیران: حجۃ الاسلام والمسلمین مرزارضا عباس ، حجۃ الاسلام والمسلمین مرزاجعفر عباس صاحبان اور اساتذہ کرام حجة الاسلام والمسلمین محمد ابراہیم،  حجۃ الاسلام والمسلمین قمر عباس خاں،  حجۃ الاسلام والمسلمین مسیب،  مولانا تقی رضا  صاحبان وغیرہ اور تمام شاگردان کی خدمت میں تعزیت و تسلیت  پیش کرتا ہوں اور آخر میں  رب کریم کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ پالنے والے  استاد محترم  کی مغفرت  فرما ، ان کے درجات بلند فرما  علماء،  صالحین و شہداء میں محشور فرما اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل و اجر جزیل عنایت فرما ۔آمین۔ والحمد للہ رب العالمین۔ 
والسلام

آہ استاد محترم مولانا سید شباب حیدر نقوی نوراللہ مرقدہ  
تحریر: مولانا سید رضی حیدر پھندیڑوی ایران کلچرہاوس دہلی 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • حسن مہدی IN 07:43 - 2021/06/19
    0 0
    اللہ مولانا مرحوم کی مغفرت فرماے آمین